وفاقی بجٹ میں کچھ اقدامات کو سراہتے ہوئے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ٹیکس لگانے کے اقدامات پر تشویش ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ یہ اقدامات معاشی سرگرمیوں میں کمی کے علاوہ کاروبار کرنے کی لاگت کو بڑھا دیں گے۔بجٹ کے اعلان کے بعد اپنے خطاب میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس بجٹ کے مثبت پہلو بھی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے چیلنجز بھی ہیں۔
اس موقع پر سینئر نائب صدر ظفر محمود چوہدری، نائب صدر عدنان خالد بٹ، سابق صدور محمد علی میاں، شاہد حسن شیخ، عبدالباسط، سابق نائب صدور فہیم رحمان سہگل، میاں ابوذر شاد، طاہر منظور چوہدری، ذیشان خلیل، ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین نے بھی شرکت کی۔
صدر کاشف انور نے کہا کہ بظاہر یہ مشکل بجٹ ہے، جو معیشت کے لیے بہت کم فائدہ مند ہوگا۔ انہوں نے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ مینوفیکچرنگ اور برآمدات یا معیشت کے لیے ضروری معاونت فراہم نہیں کرے گا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ سیمنٹ اور پراپرٹی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے اور شیشے پر سے درآمدی ڈیوٹی ہٹانے اور غیر منقولہ جائیداد پر ایف ای ڈی لگانے سے کاروباری مشکلات بڑھیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس نیٹ م بڑھانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے سوال کیا کہ جب رئیل اسٹیٹ اور پراپرٹی پر کیپٹل گین ٹیکس لگایا جائے گا تو کنسٹرکشن سیکٹر کیسے فروغ پائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایڈوانس ٹیکس کو 2.25 فیصد کرنے سے مینوفیکچررز اور ریٹیلرز کی لاگت میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح ٹیکس کی شرح میں اضافہ ٹیکس چوری کو دعوت دیتا ہے۔انہوں نے بجٹ کے بارے میں تشویش ظاہر کی کہ ٹیکس کی حد سے زیادہ شرح ممکنہ فوائد کو ختم کر دیگی۔ انہوں نے کہا کہ اس مشکل وقت میں، ٹئیر 1 ریٹیلرز کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح 12% سے بڑھا کر 18% کرنا ڈاکومینٹیشن کی کوششوں میں رکاوٹ بنے گا۔ انہوں نے ٹیکس کے ایک آسان نظام کو متعارف کرانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی تاجر ٹیکس ادا کرنے سے نہیں ڈرتا بلکہ ضرورت سے زیادہ ریگولیٹری اختیارات سے ڈرتا ہے۔
الیکٹرک کاروں، موبائل اور اسکریپ پر ڈیوٹی میں اضافے اور مقامی طور پر تیار نہ ہونے والی مصنوعات پر اضافی کسٹمز ڈیوٹی لگانے سے کاروبار کرنے کی لاگت بڑھ جائے گی۔ انہوں نے سمگلنگ کو روکنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ارو کہا کہ اگر مہنگائی کم ہو رہی ہے اوربے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اضافہ کیا گیا ہے تو تنخواہوں کو 32,000 سے 36,000 تک بڑھانے کی کیا وجہ ہے۔
کاشف انور نے سولر سیکٹر کے لیے مثبت اقدامات کا اعتراف کیا لیکن بعض اقدامات پر عمل درآمد سے خبردار کیا۔ انہوں نے ذکر کیا کہ بہت سے ایس آر اوز ابھی آنا باقی ہیں اور انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ موجودہ بجٹ مہنگائی کو بڑھا دے گا اور صنعت کاری اور معاشی سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا کرے گا۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ تجاویز پر غور کرے، بجٹ کے بعد کے مطالبات کی بنیاد پر اقدامات کرے، اور مناسب مشاورت کے ساتھ فنانس بل کا مسودہ تیار کرنے کے لیے تجاویز کا جائزہ لے۔